پہلی بین الاقوامی کریمینالوجی کانفرنس کا اختتام — فرسودہ قوانین، ناکام نظام اور اصلاحات کی گونج
یونیورسٹی آف پشاور کے باڑہ گلی سمر کیمپس میں منعقدہ پہلی بین الاقوامی کریمینالوجی کانفرنس کی اختتامی تقریب 8 اگست 2025 کو منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا موضوع تھا: ”پاکستان میں نظامِ انصاف کی اصلاحات: نوآبادیاتی ورثے اور جدید تقاضے”۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیریسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے اختتامی سیشن سے کلیدی خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان فرسودہ اور متروک قوانین کا قبرستان بن چکا ہے۔ صرف قانون سازی مسائل کا حل نہیں، جرائم کی وجوہات کی اصل تشخیص (Etiology) کی ضرورت ہے۔
اپنی ڈاکٹری تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسانی تعلقات طاقت اور مفادات کے دو بنیادی اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ جب معاشرتی اقدار کمزور ہو جائیں تو قوانین کو عمل میں آنا پڑتا ہے۔ لیکن قوانین تبھی مؤثر ہو سکتے ہیں جب معاشرتی انصاف کا نظام بھی فعال ہو۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نظام کی ناکامی ہی اصل مسئلہ ہے اور اس کا حل قانون سازی نہیں۔بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا کہ معاشرے کو انسان کی فلاح پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ہر وہ چیز جو کامیاب ہو جائے قانون بن جاتا ہے انسانوں کے تمام رشتے طاقت اور ضرورت پر مبنی ہوتے ہیں ہم طاقت کی بنیاد پر دوسرے انسانوں سے تعلق بناتے ہیں بیرسٹر محمدعلی سیف نے مزید کہا کہ سماجی اقدار پر عمل درامد سے قوانین کی ضرورت باقی نہیں رہتی سماجی اقدار کی کمزوری سے قوانین سازی کی ضرورت پڑتی ہے۔جرم قانون سے ختم نہیں ہو سکتا جرم کی پیدائش کے محرکات کو ختم کرنا ہوگا۔ بیرسٹر سیف نے مزید کہا کہ فرسٹریشن کی انتہا’ انتہا پسندی کو جنم دے سکتی ہے علم کے ذریعے ہمیں سوچ کو بدلنا ہوگا.انہوں نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم ناکام ہے۔انسانوں کے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک انسانی رویے نہیں بدلتے معاشرہ نہیں بدلے گا۔جب تک معاشرتی انصاف نہیں ہوگا تب تک کریمینل جسٹس نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی تعلیمات کا مرکز عدل ہے۔ ہمیں نو ابادیاتی نظام کی باقیات سے اگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
دیگر معزز مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر جوہر علی، وائس چانسلر، یونیورسٹی آف پشاور’پروفیسر ڈاکٹر ناصر جمال خٹک، وائس چانسلر، یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر، مظفرآباد ‘امین الرحمٰن یوسف زئی، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ و صدر پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ‘ڈاکٹر بشارت حسین، چیئرمین، شعبہ کریمینالوجی، یونیورسٹی آف پشاورشامل تھے جبکہ
ڈاکٹر وحید احمد عباسی، چیئرمین، شعبہ کریمینالوجی، یونیورسٹی آف سندھ۔ ‘عابد حسین، ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر، سندھ ‘محمد وسیم خان، سپرنٹنڈنٹ جیل، مردان ‘ وجاہت ملک، وکیل، اسلام آباد ہائیکورٹ بھی اس موقع پر موجود تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر ناصر جمال خٹک نے اپنے خطاب میں ”Otherize, Demonize, Criminalize” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کو کمتر سمجھنا اور بدنام کرنا معاشرتی زوال اور تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تشدد کا خاتمہ مطلوب ہے تو ہمیں ان وجوہات کو ختم کرنا ہوگا جو تباہی کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔
امین الرحمٰن یوسف زئی نے پاکستان کے نظامِ انصاف کی ناکامی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نظام اب بھی نوآبادیاتی قوانین پر چل رہا ہے۔ 60 فیصد سے زائد قیدی زیرِ سماعت مقدمات میں ہیں، اور ہمیں سزاؤں کی بجائے اصلاحات پر مبنی انصاف کی طرف بڑھنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر جوہر علی نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کی کاوشوں کو سراہا اور سوال اٹھایا کہ ”کیا ہم آزادی کے بعد بھی اپنے قوانین خود نہیں بنا سکتے؟ کیا ہم اب بھی نوآبادیاتی سوچ کے تابع ہیں؟”
ڈاکٹر بشارت حسین، چیئرمین شعبہ کریمینالوجی اور کانفرنس آرگنائزر نے شرکاء اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا، بریک آؤٹ سیشنز کی سفارشات پیش کیں، اور مستقل علمی روابط کے فروغ پر زور دیا۔
تقریب کے اختتام پر مہمان مقررین میں شیلڈز جبکہ طلبہ آرگنائزرز کو تعریفی اسناد دی گئیں۔
Closing ceremony of the first International Criminology Conference held at the Bara Gali Summer Campus of the University of Peshawar